| جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں |
| اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں |
| کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے |
| جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں |
| مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں |
| تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں |
| کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے |
| دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں |
| گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے |
| یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں |
| کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش |
| اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں |
| جاگہ سے بھی جاتے ہو منھ سے بھی خشن ہوکر |
| وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں |
| سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے |
| برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں |
| ان آئینہ رویوں کے کیا میر بھی عاشق ہیں |
| جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں |
بحر
|
ہزج مثمن اخرب سالم
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات