| گھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی |
| مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی |
| سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی رہ گئی |
| "کھنچ کے، قاتل! جب تری شمشیر آدھی رہ گئی |
| غم سے جانِ عاشقِ دل گیر آدھی رہ گئی" |
| بیٹھ رہتا لے کے چشمِ پُر نم اس کے روبروُ |
| کیوں کہا تو نے کہ کہہ دل کا غم اس کے روبرو |
| بات کرنے میں نکلتا ہے دم اس کے روبرو |
| "کہہ سکے ساری حقیقت کب ہم اس کے روبرو |
| ہم نشیں! آدھی ہوئی تقریر، آدھی رہ گئی" |
| تو نے دیکھا! مجھ پہ کیسی بن گئی، اے رازدار! |
| خواب و بیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار |
| مثلِ زخم آنکھوں کو سی دیتا، جو ہوتا ہوشیار |
| "کھینچتا تھا رات کو میں خواب میں تصویرِ یار |
| جاگ اٹھا جو، کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی" |
| غم نے جب گھیرا، تو چاہا ہم نے یوں، اے دل نواز! |
| مستیِ چشمِ سیہ سے چل کے ہوویں چارہ ساز |
| توُ صدائے پا سے جاگا تھا، جو محوِ خوابِ ناز |
| "دیکھتے ہی اے ستم گر! تیری چشمِ نیم باز |
| کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر، آدھی رہ گئی" |
| اس بتِ مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات |
| جس کے حسنِ روز افزوں کی یہ اک ادنیٰ ہے بات |
| ماہِ نو نکلے پہ گزری ہوں گی راتیں پان سات |
| "اس رُخِ روشن کے آگے ماہِ یک ہفتہ کی رات |
| تابشِ خورشیدِ پُر تنویر آدھی رہ گئی" |
| تا مجھے پہنچائے کاہش، بختِ بد ہے گھات میں |
| ہاں فراوانی! اگر کچھ ہے، تو ہے آفات میں |
| جُز غمِ داغ و الم، گھاٹا ہے ہر اک بات میں |
| "کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں |
| آتے ہی خاصیّتِ اکسیر آدھی رہ گئی" |
| سب سے یہ گوشہ کنارے ہے، گلے لگ جا مرے |
| آدمی کو کیا پکارے ہے، گلے لگ جا مرے |
| سر سے گر چادر اتارے ہے، گلے لگ جا مرے |
| "مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے، گلے لگ جا مرے |
| وصل کی شب، اے بتِ بے پیر آدھی رہ گئی" |
| میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں پھِر گئے |
| پھر نصیب اپنا، انھیں جاتے سنا، جوں پھر گئے |
| دیکھنا قسمت وہ آئے، اور پھر یوں پھِر گئے |
| "آ کے آدھی دور، میرے گھر سے وہ کیوں پھِر گئے |
| کیا کشش میں دل کی ان تاثیر آدھی رہ گئی" |
| ناگہاں یاد آ گئی ہے مجھ کو، یا رب! کب کی بات |
| کچھ نہیں کہتا کسی سے، سن رہا ہوں سب کی بات |
| کس لیے تجھ سے چھپاؤں، ہاں! وہ پرسوں شب کی بات |
| "نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات |
| خط میں آدھی ہو سکی، تحریر آدھی رہ گئی" |
| ہو تجلّی برق کی صورت میں، ہے یہ بھی غضب |
| پانچ چھ گھنٹے تو ہوتی فرصتِ عیش و طرب |
| شام سے آتے تو کیا اچھی گزرتی رات سب |
| "پاس میرے وہ جو آئے بھی، تو بعد از نصف شب |
| نکلی آدھی حسرت، اے تقدیر! آدھی رہ گئی" |
| تم جو فرماتے ہو، دیکھ اے غالبؔ آشفتہ سر |
| ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے، گیا کیوں اُس کے گھر؟ |
| جان کی پاؤں اماں، باتیں یہ سب سچ ہیں مگر |
| "دل نے کی ساری خرابی، لے گیا مجھ کو ظفر |
| واں کے جانے میں مری توقیر آدھی رہ گئی" |
بحر
|
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات