| نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے |
| نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے |
| صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مے کشاں ہے تو بے طلب |
| نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے |
| نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں |
| یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے |
| کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر |
| کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے |
| نہیں خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں |
| ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اُس آئینہ رُو کی ہے |
بحر
|
کامل مثمن سالم
متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات