| ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی |
| میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی |
| مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا |
| رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی |
| سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں |
| شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی |
| اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو |
| مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی |
| وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا |
| ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی |
| مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص |
| حالانکہ شہر بھر سے رقابت اسے بھی تھی |
| محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حالِ دل |
| درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات