| تو قریب اتنا مجھے شام و سحر لگتا ہے |
| دل کی شاخوں پہ محبت کا ثمر لگتا ہے |
| دیکھی ان دیکھی بہاروں کا اثر لگتا ہے |
| اور کچھ خوشیوں کے چھن جانے کا ڈر لگتا ہے |
| تو ملا ہے تو کہوں کیسے ملا کچھ بھی نہیں |
| آتشِ عشق ہے ایسی کے بچا کچھ بھی نہیں |
| اور کچھ روز میں موسم یہ بدل جائے گا |
| تو بھی آ جائے گا یہ دل بھی سنبھل جائے گا |
| میں نے سوچا تھا مگر ایسا ہوا کچھ بھی نہیں |
| آتشِ عشق ہے ایسی کہ بچا کچھ بھی نہیں |
| رنگ ہی رنگ ہیں تصویر نہیں ہے کوئی |
| اور اس خواب کی تعبیر نہیں ہے کوئی |
| جاگنا کچھ بھی نہیں سونا مرا کچھ بھی نہیں |
| آتشِ عشق ہے ایسی کہ بچا کچھ بھی نہیں |
معلومات