| برباد ہم جو ہوگئے آباد تم ہوئے |
| قاتل تمہی تھے میرے کہ فریاد تم ہوئے |
| اب بھی اسی کی شاخ سے لپٹا ہوا ہوں میں |
| جس پیڑ سے گرا کے بہت شاد تم ہوئے |
| ٹوٹے گا تم سے کیسے لہو کا یہ رابطہ |
| ہر روز ہر گھڑی میں مجھے یاد تم ہوئے |
| مجھ پر تو فرد جرم بھی عائد نہیں ہوئی |
| ہم بے خبر ہیں کس لئے جلاد تم ہوئے |
| تم نے کتر کتر کے مرے پنکھ رکھ لئے |
| تم نے بھری اڑان یا صیاد تم ہوئے |
| بنتے تو ہو وہ نیک کہ قدسی حیا کریں |
| دل بھی دکھا کے خوب ہی استاد تم ہوئے |
| تم بھی کسی کے ظلم کے جب سامنا کرو |
| پھر تم بھی جان جاؤ گے فولاد تم ہوئے |
| ماقبل تو وہ شفقت و الفت کا باب تھا |
| اب دور دوسرا ہے کہ ما بعد تم ہوئے |
| تم تو بشر کا شر ہو تمہیں کیا بشر کہیں |
| اور یہ ہوس کہ جامی و جواد تم ہوئے |
معلومات