| قید سے اپنی تو چھڑا خود کو |
| کیا ہے تو کچھ نہیں بتا خود کو |
| جان و دل ہوش سب روانہ کر |
| ان کا دیوانہ تو بنا خود کو |
| بے خودی ہی وہاں کا رستہ ہے |
| بحر الفت میں تو ترا خود کو |
| سر بکف ہو کے ان کی راہوں |
| کر دے بس نام پر فنا خود کو |
| یہ فنا ہی بقا میں ڈھلتی ہے |
| آہ کو چھوڑ کر فدا خود کو |
| ان کے عشاق بھی کیا مٹتے ہیں |
| ایسے ابطال سے ہٹا خود کو |
| ذندگی ان کے نام پر ذیشان |
| رب نے دی ہے تو یہ بتا خود کو |
| ۔۔۔۔۔۔۔ |
معلومات