قید سے اپنی تو چھڑا خود کو
کیا ہے تو کچھ نہیں بتا خود کو
جان و دل ہوش سب روانہ کر
ان کا دیوانہ تو بنا خود کو
بے خودی ہی وہاں کا رستہ ہے
بحر الفت میں تو ترا خود کو
سر بکف ہو کے ان کی راہوں
کر دے بس نام پر فنا خود کو
یہ فنا ہی بقا میں ڈھلتی ہے
آہ کو چھوڑ کر فدا خود کو
ان کے عشاق بھی کیا مٹتے ہیں
ایسے ابطال سے ہٹا خود کو
ذندگی ان کے نام پر ذیشان
رب نے دی ہے تو یہ بتا خود کو
۔۔۔۔۔۔۔

61