| َ چپ چاپ بلاتا ہے کوئی ماضی کا منظر |
| وہ جھیل کے پہلو میں مہکتا ہوا اک گھر |
| ہر موڑ پہ رک جاتا ہوں یادوں کے سہارے |
| آواز سی دیتا ہے کوئی بچھڑا مسافر |
| موسم ہو چکے سب ہی بے رنگ ترے بعد |
| ہوتی نہیں اب ویسی ہی برسات یہاں پر |
| رہتا ہے مرے ساتھ کوئی درد مسلسل |
| جیسے کسی کمرے میں ہو خالی پڑا بستر |
| بکھرا ہوا لمحہ ہوں ، صدا بھی نہیں کوئی |
| گرنے لگا ہوں کوئی مجھے تھام لے بڑھ کر |
| اک درد سا اُٹھتا ہے سرِ شام ہی عاصم |
| کھلتا ہے یہ چپکے سے دریچہ ء دل اکثر |
معلومات