| لوٹ آئے ہیں میاں خود ہی درِیار سے ہم |
| یوں ہی کب تک لگے رہتے بھلا دیوار سے ہم |
| دشتِ وحشت میں بھی ان ہی سے ہوا سامنا پھر |
| زندگی!بھاگتے پھرتے تھے جن آزار سے ہم |
| یوں ہی بےوجہ لہو تھوکتے رہنا کیا ہے؟ |
| یہی انجامِ وفا ہے تو رہے پیار سے ہم |
| اب تو بس یہ ہی تمنا ہے کہ صحرا ہو اور |
| تھک کے لگ جائیں کسی ریت کی دیوار سے ہم |
| آنکھیں پڑھنے کا ہنر ہی نہیں آتا جس کو |
| کیا کریں بات بھلا ایسے طرفدار سے ہم |
| ادھ کھلے پھول کی تصویر بنا لی ہم نے |
| خوب واقف تھے میاں وقت کی یلغار سے ہم |
| سفرِعشق میں آنکھوں میں نئے خواب لیے |
| ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے |
معلومات