| مقطع کے ساتھ |
| عصرِ عاشور میں زینب نے یہ منظر دیکھا |
| گردنِ شاہ پہ چلتا ہوا خنجر دیکھا |
| بعدِ عبّاس جو زینب بنی سالارِ حرم |
| ہاۓ سجاد کا جلتا ہوا بستر دیکھا |
| سرِ مقتل یہ سکینہ نے پکارا روکر |
| ہاۓ قسمت مری بابا کا کٹا سر دیکھا |
| باپ کے سینے پہ سوتی تھی سکینہ پیہم |
| اب وہاں سینہِِ شبّیر پہ اصغر دیکھا |
| کون کہتا ہے کے بیمار ہیں سجاد حزیں |
| طوق میں جکڑا ہوا شیرِ دلاور دیکھا |
| تیر بے شیر نے حلقوم پہ کھایا جس دم |
| ماں نے خیمے سے تڑپتے ہوئے دلبر دیکھا |
| جن کی مادر کا جنازہ اٹھے شب میں یا رب |
| ہاۓ اس بیبی کو بے مقنہ و چادر دیکھا |
| مجمعِ عام میں زینب کو پھرایا در در |
| آسماں نے نہ کبھی جس کو کھلے سر دیکھا |
| کون ہے اب ترے پردے کا محافظ زینب |
| مجرئی یاس سے بھائی کا کٹا سر دیکھا |
| ایسی رودادِ الم زین رضا نے لکھی |
| ماتمِ شاہ میں اشکوں کا سمندر دیکھا |
معلومات