زخم دل کے چھپائے رکھتا ہوں
میں دیا سا بجھائے جاتا ہوں
وقت گزرا ہے تلخ لمحوں میں
پھر بھی ہنر نبھائے جاتا ہوں
تم کو دیکھا تو یاد آیا کچھ
خود کو پھر سے بھلائے جاتا ہوں
چپ کی چادر لپیٹ کر دل پر
ہر ستم کو سہے جاتا ہوں
ایک امید ساتھ چلتی ہے
اور میں خواب بُنائے جاتا ہوں
دل پہ تحریر تیرا نام ابھی
ہر نظر سے چھپائے جاتا ہوں
کون جانے یہ کس کا قصّہ ہے
خود کو اِفری سُنائے جاتا ہوں

0
5