سنگدل مجھ کو سرِ عام یوں رسوا کر کے |
کیا ملا تم کو مرا ایسے تماشا کرکے |
دل ہی کیا جان بھی دینے پہ میں آمادہ تھا |
تم نے دیکھا ہی نہیں مجھ پہ بھروسہ کر کے |
مجھ کو امید نہیں کل میں رہوں یا نہ رہوں |
آج جی بھر کے مجھے دیکھ لو اپنا کر کے |
صرف میں ہی نہیں مغموم ، بچھڑ کر اس سے |
مبتلا وہ بھی ہے غم میں مجھے تنہا کر کے |
تو تو ہرگز نہیں کر عہد وفا کی باتیں |
تیری فطرت ہے مکر جانے کی، وعدہ کر کے |
تجھ سے ملنے نہ دیا شہر کے لوگوں نے ترے |
ورنہ میں گھر سے تو نکلا تھا ارادہ کر کے |
آئینہ سچ ہی دکھائے گا ہمیشہ یونسؔ |
لاکھ تم دیکھ لو آئینے کو ٹیڑھا کرکے |
معلومات