متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن
تِری عقل نقل کے مو بَمو تِری فکر کفر کے یم بہ یم
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مے کشاں رہے یم بہ یم
ترے دل میں خوف کا ایک بت، تری ذات میں ہے وہی صدا
جو گماں میں قید ہوا کبھی، وہ یقیں میں ڈوبا ہے یم بہ یم
تری ذات غم کا مزار ہے، تری بات زہر کا جام ہے
تُو دکھا یقین کا روپ بھی، مگر اس نقاب سے یم بہ یم
یہی مے کدہ ہے قرار کا، یہی در ہے دل کے وقار کا
یہی قافلہ ہے بہار کا، صفِ مے کشاں رہے یم بہ یم
تری سوچ مٹّی میں دفن ہے، ترا خواب خاک کا بن گیا
جو چراغِ دل میں جلا کبھی، وہی بجھ گیا سرء یم بہ یم
میں فقیہہ عشق کا رہرو، نہ مریدِ عقل و فسانہ ہوں
یہی درسِ شوق سکھا گیا، مرے دل میں نام تھے یم بہ یم
ہو کرم جو ارشدؔ حُر تو پھر، تِرا نیزہ نیزہء شش جہت
تو رُکے تو جَم یہ جہانِ نو، تو چلے تو دَم چلے یَم بہ یَم
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
4