| بلا رہے تھے نبی سو شہید ہونا تھا |
| مئے حبیب لہو سے کشید ہونا تھا |
| یہ بزم تیری نہیں تھی یہاں سے جانا تھا |
| حقیقتوں کا تجھے چشم دید ہونا تھا |
| اگر حیات جو ملتی تو ایک ہی رہتا |
| مگر تجھے تو جہاں میں مزید ہونا تھا |
| مرے حضور کی ناموس کے سپاہی سن |
| مجاہدوں کی تجھے ہی کلید ہونا تھا |
| عدو حضور کے کانپیں گے نام سے تیرے |
| خوشا کہ تجھ کو خدا کی وعید ہونا تھا |
| دلوں کو عشق نبی کا سرور ملتا ہے |
| ترا بیان خوشی کی نوید ہونا تھا |
| وہ سرفراز کیا ہے حضور نے تجھ کو |
| کہ تیرے پیر کو تیرا مرید ہونا تھا |
| میں جان دے نہیں پایا زبان دیتا ہوں |
| مرے قلم کو بھی جامیؔ سعید ہونا تھا |
معلومات