| لیجئے میری خبر اور بے خبر ہو جائیے |
| آپ سے کس نے کہا تھا پل میں شر ہو جائیے |
| مشکلوں میں جی کے سیکھا زندگی کا یہ ہنر |
| قطرہ قطرہ روئیے ہنس کر شکر ہو جائیے |
| آج کیوں مانے گا کوئی آپ کی تقریر کو |
| خون دل کا روز کیجئے پھر اثر ہو جائیے |
| رفتہ رفتہ ہو ہی جائے گی قدر بھی آپ کی |
| موسمِ تذلیل ہے یہ بے قدر ہو جائیے |
| کیوں فرشتہ بن کے رہنے کی تمنا پالئے |
| اس سے پہلے لازمی ہے کچھ بشر ہو جائیے |
| اپنے رشتے دار تو تم سے پھلا بیٹھے ہیں منھ |
| اب کہاں پر جائیے شیر و شکر یا جائیے |
| سر سلامت ہو نہ ہو ایماں سلامت باد ہو |
| یوں چمکنا چاہتے ہیں ہم قمر ہو جائیے |
| مٹ کے پاتے ہیں سراغِ زندگی اس راہ میں |
| دیدئہ حیراں نہ ہو کر دیدہ تر ہو جائیے |
| ہم نے جانا آدمیت بس اسی کا نام ہے |
| فائدہ مندی نہ ہو تو بے ضرر ہو جائیے |
| پھر بلا سے جس طرح زیر و زبر ہو جائیے |
| ایک ذرہ ہو کے جامی آرزو تو دیکھئے |
معلومات