| میرا دشمن مرا یقیں نکلا |
| زیبؔ دل کمتر و کمیں نکلا |
| مجھ کو تھا خطرۂِ دیارِ رقیب |
| شبِ سوزاں تُو بھی وہیں نکلا |
| وقت رہتے ہی دھر دیا الزام |
| یعنی تُو تو بہت ذہیں نکلا |
| شہر کے موڑ پر ملے اور پھر |
| میں کہیں اور تُو کہیں نکلا |
| کیا تجھے بھی وفا سے پاس نہیں؟ |
| یا میں ہی کوئی نقطہ چیں نکلا؟ |
| کہا جاتا ہے آسمان پھٹا |
| اور پھر نقشۂِ زمیں نکلا |
| میں نے سامان باندھا ہے ہر شام |
| اور پھر میں! کہیں نہیں نکلا |
معلومات