ہر حقیقت سے ہے افضل مرا افسانہِ غم
کیسے سمجھے گا مرا غم کوئی بیگانہ غم
میں کہ شیدائیِ چشمِ مئے افرنگِ بتاں
کوئی تو ہو جو بھرے میرا یہ پیمانہ ِغم
میں نے دیکھا ہے جہاں میں عجب اک رنگ جہاں
کوئی فرزانہِ راحت کوئی دیوانہِ غم
ہر طرف بادِ بہاری خبر گرم ہوئی
دیکھئے معجزہ خاکسترِ پروانہِ غم
سارے عالم میں نہیں ایک بھی سودائیِ درد
کون آباد کرے گا مرا کاشانہِ غم
کوئی خوشیوں کی تمنا نہ دکھوں کی کوئی فکر
کتنا بیگانہ¿ عالم ہے یہ مستانہِ غم
کتنے فرہاد سے مجنوں سے ہیں آباد یہاں
کوئی آکر ذرا دیکھے مرا ویرانہِ غم
میرے جانے سے ذرا دیکھئے کیا رنگ ہوا
اب کوئی شمع ہے محفل میں نہ پروانہِ غم
دل ہی جب ساغرو بادہ پہ نہیں خوش تو بتا
کیسے آباد رہے گا مرا میخانہِ غم
اپنی ہستی ہی مٹا ڈالی حبیب اس کے لئے
پھر نہ کیوں پھولے پھلے میرا ہر اک دانہِ غم

0
80