| عجلت دکھائیں وصل کے مت ارتکاب میں |
| آ جائے ہجر بن کے نہ ہڈی کباب میں |
| کرتا میں ترک زہد ، چلا جاتا میکدے |
| اس آنکھ سا خمار جو ہوتا شراب میں |
| خیرہ کرے نگاہ کو اس حسن کی چمک |
| اک آفتابِ حسن ہے اس ماہتاب میں |
| آتے ہوئے قریب نہ لے پیش و پس سے کام |
| تھوڑی بہت خطا ہے ضروری شباب میں |
| منزل نجانے کس لیے ہم سے خفا ہوئی |
| مجھ میں ہے کوئی کھوٹ نہ ہی ہم رکاب میں |
| گنتی میں چند بوسے نہیں آ سکے مرے |
| شاید مغالطہ ہوا صاحب حساب میں |
| آتا ہے بارہا تجھے چھوتے ہوئے خیال |
| کوئی کمی نہ آئے تری آب و تاب میں |
| ڈرتا ہوں لگ نہ جائے کسی اور کی نظر |
| موجود چند پھول ہیں میری کتاب میں |
| جب آنکھ بھر کے دیکھے اسے آسماں قمرؔ |
| ہوگی جبیں زمین کی سرخ اضطراب میں |
معلومات