| دل احتساب ذات کی زد میں ہے آج کل |
| ہر اک عمل گناہ کی مد میں ہے آج کل |
| اطراف جاں میں رقص ہے شعلوں کا دم بدم |
| سایہ بھی اپنے جسم کے قد میں ہے آج کل |
| امواج جذب عشق کی سب سر نگوں ہوئیں |
| دریائے اضطراب بھی حد میں ہے آج کل |
| دامن کو ہے سکون گریباں بھی مطئمن |
| دیوانگی بھی قید عمد میں ہے آج کل |
| عالم ہے مست علم سے، میکش شراب سے |
| کیا امتیاز نیک اور بد میں ہے آج کل |
| شاعر تو بے نیاز غم و رنج ہو گئے |
| دل شاد میرا ذکر صمد میں ہے آج کل |
معلومات