| کسی کو آج میسر ، کسی کو کل دے گا |
| وہ مشکلات میں ڈالے گا اور حل دے گا |
| وہ جس کے ایک اشارے سے رات دن میں ڈھلے |
| وہ لفظِ کن سے مری زندگی بدل دے گا |
| نہیں ہے اس سے بڑا کوئی عدل کا مالک |
| گلاب دے گا ، کسی شخص کو کنول دے گا |
| خدا کے خوف سے تم چھوڑ دو اگر کچھ بھی |
| یقین ہے کہ خدا بہترین پھل دے گا |
| نئی ردیف ، نیا قافیہ ، زمین نئی |
| نیا خیال جنم اک نئی غزل دے گا |
| بنا کے بادشاہ اس کے غرور شکنی میں |
| وہ اک فقیر کے ہاتھوں اسے محل دے گا |
| یہاں سے دولت و زر لے کے کون جاتا ہے |
| وہاں تمہارے لیے کام خوش عمل دے گا |
| کسی کے دل کو یوں تکلیف دے اگر کوئی |
| بنا کے کیڑا اسے پھر خدا مسل دے گا |
| میں خود سے کہتا ہوں خالد ، خدا سکوں کے لیے |
| کسی کے دل میں محبت کی کچھ پہل دے گا |
معلومات