حسن ہے جس کا لاجواب جس کی وہ آنکھیں ہیں شراب |
لوٹ کے لے گیا ہے مجھ کو وہی خانماں خراب |
دیکھ کے مجھ کو بزم میں جھٹ سے تکلفِ حجاب |
مجھ پہ گراں گزرتا ہے ان کی سرشت میں شتاب |
ذکرِ وفا کروں جو بزم میں تو وہ مسکراتے ہیں |
اور کبھی وہ چھیڑ سے کہتے ہیں، کیا کہا جناب؟ |
ہے یہ عجیب دور مجھ پر کہ شبِ فراق میں |
جلتا ہوں یوں کہ آتی ہے جسم سے خوشبوۓ کباب |
زیست کی خوش نمائی سے زیبؔ میں دھوکا کھا گیا |
پھر اسی خوش نمائی نے چھین لیا مرا شباب |
سوچتا تھا مرے دل و جان کو چین کیوں نہیں؟ |
راز کھلا، کہ دنیا میں سب ہے مگر سکوں نہیں |
خلوتِ شب ہے، قلفتیں ہیں، کہ ہے درد بے شمار |
ظلم، کہ نیند آتی ہے مجھ کو، نہ آتا ہے قرار |
آنکھیں ہوئی پڑی ہیں زرد، جسم ہے میرا ناتواں |
گوشہ نشیں ہوں، تیغِ ہجر سے مرا سینہ ہے فگار |
یہ بھی عذاب کم نہیں خلوتِ خانہ میں مرے |
یاد ہے، اشک ہیں، میں ہوں اور کسی کا انتظار |
صحن میں جلتا بجھتا سا دیپ ہے، جس کو دیکھ کر |
خوف زدہ ہوں میں بھی، سہم ناک ہیں سب در و دیوار |
ان پہ جو اعتبار ایک بار کیا سو وہ کیا |
پھر مجھے اعتبار پر کوئی رہا نہ اعتبار |
خواہشِ حاصلِ بدن میں ہیں مدام عاشقاں |
پس انہیں مار دیتا ہے عہدِ فراقِ جاوداں |
کیسا دیوانہ ہے کہ ہجر میں جو لہو لہو نہ ہو |
یعنی ہو ابنِ آدم اور خصلتِ آرزو نہ ہو |
بزم میں آج بس یہ کہہ کر انہیں، میں اٹھ آیا ہوں |
آپ ہیں جس قدر کوئی اتنا بھی تند خو نہ ہو |
دل میں ہے آرزو کہ دل میں نہ ہو آرزو کوئی |
یہ بھی تو ایک آرزو ہے کہ کچھ آرزو نہ ہو |
ان کو منا تو لوں مگر جاتا رہے گا عیشِ ہجر |
اب مجھے شوق ہے مرا چاک جگر رفو نہ ہو |
خصلتِ انس کے ہیں سب کام کیے کہ اس میں گر |
شر نہ ہو تو یہ وحشتِ عالمِ کاخ و کو نہ ہو |
کچھ نہیں، جو ہے دسترس میں، جو نہیں، ہے اس کی خواست |
مرتے ہیں اس میں، ہے یہی فلسفہ و منطقِ حیات |
معلومات