| خدا کرے کہ تجھے وقت کی سزا نہ لگے |
| یہ درد ایسا ہے جس کو کوئی دوا نہ لگے |
| میں تیرگی میں رکھوں گا چراغِ ہجر جلا |
| کہ تیری یاد کو موسم کبھی خفا نہ لگے |
| ترے بغیر یہ دنیا بھی ایک صحرا ہے |
| مسافتوں میں کوئی نقشِ کفِ پا نہ لگے |
| یہ دل تو مانگ رہا ہے دعاؤں کی بھیگ اب |
| خدا کرے کہ مرے ہاتھ التجا نہ لگے |
| وفا کے نام پہ سہنا ستم بھی اچھا نہیں |
| کہاں کا عدل، جہاں ظلم کو سزا نہ لگے |
| یہ چاہتوں کا صلہ ہے کہ اشک بہتے رہیں |
| جدائی ایسی کہ آنکھوں کو اب دعا نہ لگے |
| ہوا کے ہاتھ میں پتوں کی بے قراری ہو |
| مگر درخت کی شاخوں کو بد دعا نہ لگے |
معلومات