| منزلیں گُم ہو چکی ہیں، سخت ہے رستہ بہت |
| اب ضروری ہو گیا ہے آپ کا آنا بہت |
| آئیے، اب آئیے، اب آیئے، آ جائیے |
| دل بہت اکتا گیا ہے اے مرے مولا بہت |
| کربلا سے آج تک مجھ کو نظر آیا نہیں |
| کوئی حُر جیسا مقدر کا دھنی ڈھونڈا بہت |
| ہیں عزا کی گہما گہمی سے جہاں کی رونقیں |
| ورنہ اس دارِ جہاں میں ہوتا سناٹا بہت |
| روزِ عاشورہ پڑی جب اپنے بچوں پر نظر |
| اک عجب احساس تھا لیکن لگا اچھا بہت |
| کب کیا دعویٰ یہ میں نے، میں سخنور ہوں ظہیر |
| ہاں زبانِ لکھنؤ کا ہے اثر تھوڑا بہت |
معلومات