نہ کر ذکرِ الفت، نہ کر بات دل کی
کہ اب دل میں حسرت نہیں ہے کسی کی
««
کسی کو سنانا، کسی کو بتانا
رواؔیت محبت نہیں ہے سبھی کی
««
رہے گی یہ دنیا، رہے گا زمانہ
مگر اپنی صورت نہیں ہے وہی کی
««
ستم آشنا ہیں، کرم آشنا ہیں
کوئی اس میں حیرت نہیں ہے نئی کی
««
نہ آیا کوئی بھی، نہ جائے گا کوئی
عجب رسمِ صحبت نہیں ہے یہاں کی
««
بہت ہم نے چاہا، بہت ہم نے پایا
مگر اب وہ لذت نہیں ہے خوشی کی
««
غمِ روزگاراں، غمِ دل، غمِ جاں
کوئی حد ملامت نہیں ہے جلی کی
««
'ندیم' اب یہ دل کو سنبھالے گا کیسے
کہ اس دل میں طاقت نہیں ہے کسی کی

0
4