غزل
جو مجھے کبھی بھی نہ مل سکی مجھے اس خوشی کی تلاش ہے
میں خود اپنے آپ کو جان لوں اسی آگہی کی تلاش ہے
تیری عمر بھر رہی جستجو میں تجھے کبھی بھی نہ پا سکا
میں تو ہوں بقید حیات پرمجھے زندگی کی تلاش ہے
میں اکیلا خوش ہوں تو کچھ نہیں مجھے ہر کسی کا خیال ہے
جو ہو خستہ حال بھی خوش اگر مجھے اس خوشی کی تلاش ہے
مجھے کوئی اپنا نہ مل سکا جسے اپنا دوست میں کہہ سکوں
میرے دوستوں کی قطار میں مجھے دوستی کی تلاش ہے
یہ عجیب بات ہے کرشن جی بھی نہ بچ سکے تھے شباب میں
اْسے عاشقی کی تلاش تھی ہ میں بندگی کی تلاش ہے
یہ عجیب بات ہے دہر میں کسے کیا ملا کسے کیا ملا
تجھے مال و زر کی طلب رہی مجھے شاعری کی تلاش ہے
تجھے ڈھونڈتا ہی رہا ہوں میں تری اک جھلک ہی نصیب ہو
میں اندھیری شب میں ہوں گم ابھی مجھے روشنی کی تلاش ہے
سید ابوبکر مالکی

2
278
بہت خوب

0
ماشاء اللہ...

0