تلخ ہے یہ حقیقت فسانہ نہیں
ان دُکھوں نے کبھی یار جانا نہیں
آج اک ہے تو کل پھر کوئی دوسرا
شکوہ اس کا مگر لب پہ لانا نہیں
آگ سی اک لگی ہے مرے سینے میں
آبِ دنیا سے ممکن بجھانا نہیں
فلسفہ امتحاں کا یہ دشوار ہے
ہر کسی کی سمجھ میں یہ آنا نہیں
ہے رِضا گر چھُپی اُس کی غم میں مِرے
پھر خوشی میں مجھے دل لگانا نہیں
مسکراہٹ لبوں پر سجی دیکھ لو
ساز غم کا مجھے بس بجانا نہیں
بس کرو تم بھی زیرک قلم روک دو
داغ دل کے ہمیں سب دکھانا نہیں

0
1
15
ڈاکٹر صاحب - اپنی اردو بہتر کرنے کے لیے کچھ سوال اس غزل سے متعلق پوچھنا چاہوں گا اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے -
تلخ ہے یہ حقیقت فسانہ نہیں
== حقیقت اور فسانہ ایک دوسرے کے مخالف کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں مگر آپ نے حقیقت کو تلخ کہہ کر اسے مخصوص کردیا - اب یہ عمومی بات تو نہ رہی - حقیقت تلخ ہو سکتی ہے تو فسانہ بھی تلخ ہو سکتا ہے - لہذا اب دونوں میں وہ عمومی تعلق تو رہا نہیں - تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟

ان دُکھوں نے کبھی یار جانا نہیں
== میں نے پڑھا ہے کہ "میں نے کھانا کھانا نہیں" اردو میں غلط ہے ایسا پنجابی زبان میں کہا جاتا ہے - اردو میں کہنا ہوگا "مجھے کھانا نہیں کھانا" - اسی کلیے پہ "دکھوں نے کبھی جانا نہیں " بھی غلط نہیں ہوگا - کیا اسے ان دکھوں کو کبھی جانا نہیں ، نہیں ہونا چاہیئے ؟

آج اک ہے تو کل پھر کوئی دوسرا
شکوہ اس کا مگر لب پہ لانا نہیں
== یہاں یہ پتا نہیں چلتا کہ آج کیا ایک ہے اور کل کیا دوسرا ہوگا؟ تو پھر کس بات کا شکوہ لب پر نہیں لانا ہے - کیا یہ شعر صحیح ہوا؟

آگ سی اک لگی ہے مرے سینے میں
آبِ دنیا سے ممکن بجھانا نہیں
== آبِ دنیا گو تکنیکی اعتبار سے درست ہے - مگر اردو میں یہ اصطلاح کبھی اسستعمال نہیں ہوئی کسی شاعر یا ادیب نے نہیں کی - تو کیا کوئی نیا شاعر ایسی اصطلاح بنا سکتا ہے جو اردو میں مروج نہ ہو؟

بس کرو تم بھی زیرک قلم روک دو
داغ دل کے ہمیں سب دکھانا نہیں
== اردو میں عموما کہا جاتا ہے کوئی چیز ساری یا سب ہی ہمیں نہیں دکھانی - کوئی چیز "سب" ہمیں دکھانا نہیں تو استعمال نہیں ہوتا - تو کیا ایسے لکھنا درست ہے؟

شکریہ

0