صدیوں پہلے،
جب وقت نے پہلا سانس لیا،
محبت کا بیج بویا گیا،
نرم دلوں کی زمین پر،
آنکھوں کی چمک میں،
ہونٹوں کی ہلکی لرزش میں،
اور لمس کی سرگوشیوں میں۔
پہلی محبت،
شاید ہوا میں تھی،
ایک تتلی کے پروں پر بیٹھی ہوئی،
یا شاید کسی ننھے پھول کی خوشبو میں چھپی تھی،
کسی پتھر دل کو موم کرتی ہوئی۔
کبھی پتھروں پر لکھی جاتی تھی،
کبھی ریت پر،
اور کبھی آنکھوں کی گہری جھیلوں میں
ایک بےنام زبان میں،
جو دل سے دل تک
سفر کرتی تھی۔
محبتیں ہمیشہ سے تھیں،
پہلی بار جب انسان نے
آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھا،
تو دل کے کسی کونے میں
محبت کی پہلی چنگاری بھڑکی،
کسی پہلی نظر،
کسی پہلے لمس کی طرح،
جو انسان کو اپنے آپ سے
باہر لے گیا۔
محبت،
کبھی کوہ قاف کی پریوں کے قصوں میں ملی،
کبھی یوسف و زلیخا کی داستانوں میں،
اور کبھی لیلیٰ و مجنوں کے افسانوں میں،
جو صحرا کے ذروں میں
گم ہو گئے،
مگر ان کی آہیں
وقت کے آسمان پر نقش ہو گئیں۔
محبت،
کبھی ایک دعا تھی
جو کسی خاموش رات میں
چپکے سے لبوں پر آ جاتی،
اور کبھی ایک آرزو
جو دل کے نہاں خانوں میں
زندہ رہتی،
دھڑکنوں کی طرح،
جو کبھی تھمتی نہیں۔
محبتوں کی تاریخ میں،
کبھی قلوپطرہ کی آنکھوں نے
جنگیں چھیڑ دیں،
اور کبھی تاج محل
محبت کا نشان بن کر
صدیوں کی فضاؤں میں
گھل گیا،
ایک ایسے جذبے کی علامت
جو فنا نہیں ہوتا،
جو وقت سے ماورا ہے۔
محبت،
کبھی فلسفہ بنی
ارسطو کی تحریروں میں،
کبھی سقراط کے سوالوں میں
اس کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کی گئی،
مگر محبت
ان سوالوں کے دائرے میں
کبھی نہ سمٹی،
وہ ہمیشہ آزاد رہی،
ایک لامحدود احساس،
جو عقل کی قید سے دور
روحوں کو چھوتی رہی۔
محبتوں کی تاریخ میں
ایسی محبتیں بھی تھیں
جو زبان پر نہ آئیں،
کسی آنسو کے قطرے کی طرح
خاموشی سے بہہ گئیں،
اور کچھ ایسی تھیں
جو بغاوت بن کر پھوٹیں،
نظاموں کو توڑ گئیں،
زنجیروں کو چیر گئیں،
اور خود کو
دنیا کے سامنے
ثابت کر گئیں۔
محبت،
ایک سوال تھی
عشق کے صوفیانہ رستوں میں،
رومی کے اشعار میں،
حلاج کی فریادوں میں،
اور منصور کے نعرۂ حق میں،
جو محبت کی انتہا تھی،
جہاں ذات ختم ہو جاتی ہے
اور صرف محبت رہ جاتی ہے۔
محبتیں،
کبھی بارش کی بوندوں میں
چھپ کر آتی تھیں،
کبھی ہوا کے جھونکے میں
دھیرے سے کانوں میں سرگوشی کرتی تھیں،
کبھی کسی اجنبی شہر میں
پہلی نظر کے تعاقب میں،
کسی انجانے چہرے کے پیچھے
اپنا دل چھوڑ جاتی تھیں۔
محبت،
کبھی خطوں میں لکھی جاتی،
وہ خط
جو کبھی بھیجے نہ جا سکے،
مگر دلوں کے اندر
ہمیشہ محفوظ رہے،
وہ جذبات جو کبھی الفاظ نہ بن سکے
مگر روح کے کناروں پر
ہمیشہ لہراتے رہے۔
محبتوں کی تاریخ میں
ہمیشہ ایک ادھورا پن تھا،
ایک تشنگی،
جو کبھی ختم نہ ہوئی،
کیونکہ محبت
کبھی مکمل نہیں ہوتی،
وہ ہمیشہ چلتی رہتی ہے،
کسی ندی کی طرح
جو پہاڑوں سے نکلتی ہے
مگر سمندر تک پہنچنے سے پہلے
خود کو کھو دیتی ہے۔
محبتیں،
جو آج بھی ہیں،
کل بھی تھیں،
اور کل بھی ہوں گی،
مگر ہر دور میں
کچھ نئی، کچھ پرانی،
کچھ انجانی،
کچھ جانی پہچانی۔
یہ محبتیں
نہ کبھی مٹ سکیں گی
اور نہ کبھی مکمل ہوں گی۔
یہ محبتوں کی تاریخ ہے،
جو ہمیشہ سے تھی،
اور ہمیشہ رہے گی۔
محبتوں کی تاریخ
ہم سب کے دلوں میں
لکھی جا رہی ہے،
ہر روز،
ہر لمحہ،
ایک نئے قصے میں،
ایک نئے نام میں،
مگر اس کا مطلب
ہمیشہ ایک ہی رہے گا—
محبت۔

32