| اِک نظر ہم کو اِشارے سے بَلا لوگے یہ آج |
| ہوگا کیا، دل کو ہمارے، جو دکھا دوگے یہ آج |
| تم نے مانی ہے نہ مانے گی کبھی کوئی بات |
| اپنی اِس شان سے اب، ہم کو رُلا دوگے یہ آج |
| چشمِ پُر ناز سے کچھ اور ہی مطلب نکلے |
| اور ہر اک بات میں، اک اور اَدا ہو گی یہ آج |
| کیوں یہ ناز اور یہ انداز، کسی پر کیوں ہے؟ |
| چاہتیں بھی ہیں بھلا کیا، کہ سُنا دوگے یہ آج |
| کتنے شکوے ہیں مرے پاس، کہاں تک کہوں؟ |
| ایک بھی سُن کے، ہمیں تم تو بھُلا دوگے یہ آج |
| ایک ہی لفظ ہے اور اس میں عجب ہے اک فریب |
| اس طرح روٹھ کے تم خود کو مِٹا دوگے یہ آج |
| اس طرح روٹھ کے جانا، یہ محبت تو نہیں |
| بے وفائی کا کوئی اور ہُنر ہو گا آج |
| کیوں ندیم، اپنی ہر اک بات میں ہے ذکرِ ناز؟ |
| کوئی اس ناز کی اب، کیا ہی سزا ہو گی یہ آج |
معلومات