| بس یار کچھ گذارہ ہے ماہر نہیں ہوں میں |
| تحدیثِ حُسن کرتا ہوں ، شاعر نہیں ہوں میں |
| مؤمن کو لمسِ یار کی نعمت سے کیا گریز؟ |
| گرچہ گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں |
| لے جائیے جناب یہ بوسے کہ مفت ہیں |
| عاشق ہوں میں خلوص کا تاجر نہیں ہوں میں |
| تیری سرائے دل میں رہوں گا تمام عمر |
| اک آدھ رات والا مسافر نہیں ہوں میں |
| ممکن ہے روزِ حشر درونِ جناں وصال |
| اس دہر میں تو آپ کی خاطر نہیں ہوں میں |
| میں تیری زندگی کا ہوں اول بشر! درست |
| لیکن میں جانتا ہوں کہ آخر نہیں ہوں میں |
| میں کیسے اپنے بارے میں بتلاؤں ٹھیک ٹھیک |
| پوری طرح تو خود پہ بھی ظاہر نہیں ہوں میں |
| سنگِ دلِ صنم مرے شعروں سے موم کر |
| اے تُو! جو کہہ رہا ہے کہ ساحر نہیں ہوں میں |
| گرچہ بہ پیشِ چشم نظر آتا ہوں ، یہاں |
| موجود تو ضرور ہوں ، حاضر نہیں ہوں میں |
معلومات