ڈالا ہے وقت نے مجھےکس امتحان میں
خود ہی ہدف ہوں تیر ہوں خود اپنی کمان میں
اپنی حد اور خیال کو رکھ کر گمان میں
احساس کا پرند ہے اونچی اڑان میں
اہل خرد تو عقل کے جھانسے میں آگئے
دیوانگی ہمیشہ رہی اپنی شان میں
محروم انسباط ہوں حیرت کی بات ہے
بندہ ہوں تیرا اور ہوں تیرے جہان میں
پوچھا نہ جب کسی نے خریدار خود بنا
اک جنس بے بہا تھا میں اپنی دکان میں
" شاعر" میں اپنی ذات سے ہوں مطمئن بہت
محفوظ ہر طرح سے ہوں اپنی امان میں

20