اب اس پہ چلنا تو پڑنا ہے خواہ ٹھیک نہیں
تجھے کہا بھی تھا اے دل یہ راہ ٹھیک نہیں
عجیب موسمِ ہجر و الم میں آن پھنسے
میں ٹھیک ہوں تو مرے خیر خواہ ٹھیک نہیں
ہزار سجدے بجا لائے تم جو پتھر کو
سو اب لگا ہے تمہیں سجدہ گاہ ٹھیک نہیں؟
یہاں پہ صرف غریبوں کا خون ہوتا ہے!
معاف کرنا تری قتل گاہ ٹھیک نہیں
حضور آپ کے چہرے کا کوئی دوش نہیں
میں جانتا ہوں کی میری نگاہ ٹھیک نہیں
جسے سوائے ترے دیکھنے کی چاہت ہو
وہ آنکھ ٹھیک نہیں خواب گاہ ٹھیک نہیں
میں کہہ رہا ہوں کہ پچھتاؤ گے سدھر جاؤ
کسی کے واسطے اتنی بھی چاہ ٹھیک نہیں
ہر ایک چیز پہ رکھیے گا پھونک پھونک کے پیر
یقیں کی راہ پہ یہ گردِ راہ ٹھیک نہیں
حضور اب تو سمجھتے ہیں سارے شاعری کو
فضول شعر پہ یوں واہ واہ ٹھیک نہیں
یہاں تھرکتے ہوئے پیر ڈول جاتے ہیں
میں رقص کیسے کروں رقص گاہ ٹھیک نہیں
ذرا سے جگنو سے اتنا اجالا حیرت ہے
مجھے تو لگتا ہے لیلِ سیاہ ٹھیک نہیں
نہ جھونک پھر سے میاں خود کو عشق آتش میں
ڈھلی جوانی میں ایسا گناہ ٹھیک نہیں
میں کیا کروں کہ مجھے شوق ہے غلامی کا
میں جانتا ہوں مرے سربراہ ٹھیک نہیں
نہ اپنا حسن بگاڑو میاں اداسی میں
نگاہِ ناز میں اشکِ سپاہ ٹھیک نہیں

0
17