الوداع اے فیض قرآں الوداع اے جان من
تم سے ہو کر ہم جدا اب چلدۓ اپنے وطن
تیرے آنگن میں گزارے دن بہت یاد آئیں گے
تیری یادوں کو بَھلا کیسے بُھلا ہم پا ئیں گے
تو ہماری شان ہے اور تو ہماری جان ہے
تجھ پہ اللہ کی قسم اب جان بھی قربان ہے
کیسے بھولیں آپ کے درسِ بخاری ہم جسیرؔ
خوش بیانی پاک من اور علم کے جمِ غفیر
کیسے بھولیں درس مسلم اےنصیرِؔ بزم جاں
کیسے بھولیں تیری درسی گفتگوۓ ضوفشاں
خوب یاد آۓ گی راسخؔ کی ہمیں ہرگفتگو
چھوڑ کر عبدِ عزیزیؔ کو نہ پا ئیں گےسکوں
خوب تڑپائیں گی اب تنویرؔ کی یادیں ہمیں
نرم دل شیریں زباں انعامؔ کی باتیں ہمیں
شاہ عالمؔ کی جدائی تازگی لے جاۓ گی
فرقتِ مرغوبؔ غم کا آسماں دے جاۓ گی
ہم تو واعظؔ سے بچھڑ کرغمزدہ ہونگے سدا
بھول پائیں گے نہیں اقبالؔ کی اک اک ادا
دوستو ممتازؔ اس پیارے چمن کی جان ہے
اور خوشبو میں بسا اسلام اک گلدان ہے
ہے دعا یونسؔ کی یہ گلشن سدا کِھلتا رہے
تاقیامت فیض اس سے دہر کو ملتا رہے

262