| ستارے خفا ہوں تو کیا بات ہوگی |
| اگر تم گئے تو یہاں رات ہوگی |
| ۔ |
| مسافر ہیں ہم تو، سو ہم سے نہ پوچھو |
| کہاں دن کٹے گا کہاں رات ہوگی |
| ۔ |
| رہیں جو ادھوری وہ باتیں کسئ دن |
| ابھی چلتے ہیں پھر ملاقات ہوگی |
| ۔ |
| زرا ابر تو چھٹنے دو آسماں سے |
| ہماری ستاروں سے پھر بات ہوگی |
| ۔ |
| در و بام مہکے گے اس کے بدن سے |
| مرے گھر میں پھولوں کی برسات ہوگی |
| ۔ |
| بڑے زخم جھیلے ہیں اس اک کلی نے |
| سو اب وہ ہواؤں سے محتاط ہوگی |
| ۔ |
| کئی ہفتوں سے دل پریشاں سا ہے کچھ |
| یونہی کچھ نہیں ہوتا کچھ بات ہوگی |
معلومات