جو خواب تھا وہ نیند میں ہی فوت ہو گیا
جو زندگی تھی وہ تری سوغات ہو گئی
اب وقت اور تم سے گِلہ کیا کریں گے ہم
بس اس لیے کہ ہم کو بھی مات ہو گئی
ہم کو پتا ہی نہ چلا اور یہ سفر تمام
اک عمر بس تمہاری حکایات ہو گئی
تم سے بچھڑ کے اس طرح دل کا ہوا حال
جیسے کسی فقیر کی جاگیر رات ہو گئی
رخصت ہوا تو ساتھ نہ دے پایا اور پھر
ایسی عجیب و غریب یہ بارات ہو گئی
ندیم کو بس ہے اب تو یہی اک طلب، ضمیرؔ
کیوں زندگی ہی درد کی امہات ہو گئی؟

0
3