| دلِ ناتواں مرضی کرنے لگا ہے |
| ٹھہر جاتا ہے خود ہی چلنے لگا ہے |
| تھکن سے بدن کانپنے لگ گیا ہے |
| مگر دل ابھی بھی تڑپنے لگا ہے |
| یہ آنکھیں بھی اب نیند سے روٹھ بیٹھی |
| کہ ہر خواب چپ چاپ جلنے لگا ہے |
| خموشی میں کچھ درد پوشیدہ تھے جو |
| وہ اشکوں میں بہہ کر نکلنے لگا ہے |
| نہ سایہ رہا، اور نہ آواز باقی |
| یہ کس موڑ پر دل بھٹکنے لگا ہے؟ |
| نہ جینے میں راحت، نہ مرنے میں سکوں |
| یہ دکھ خود سے آگے نکلنے لگا ہے |
| کبھی موت مانوس لگتی ہے مجھ کو |
| کبھی زیست سے دل لپٹنے لگا ہے |
| کہانی یہ دل کی افری نے لکھی ہے |
| کہ ہر اشک جیسے پگھلنے لگا ہے |
معلومات