| ہیں خاموش وجہ سے، لب پہ نہیں ہے شکایت |
| سچ ہے کہ تلخ ہے، پر تلخی کی نہیں ہے اجازت |
| جوشِ بیاں ہو کہ زورِ قلم، جا لگے بامِ اوج |
| دل سے ایماں کی جاتی، رہی پر وہ حرارت |
| نے موقوف عدد پے، اُصولِ عروج و پستی |
| ہیں بسیار مسلماں، دِکھتی نہیں ہے نیابت |
| کب مشروط فلاحِ عام زر و منصب سے؟ |
| ایدؔھی ہیں سامنے مثل، پرانی نہیں ہے حکایت |
| اہلِ زِمام کو رکھنا جزبہِ خدمت بے لوث |
| طلبِ جاہ و زر کمزور ہے کرتی قیادت |
| اُمیدِ بخشش ہے، غفورو ستاری پہ تیری |
| لوحِ صالح کی مری، اتنی نہیں ہے ضخامت |
| حُر مندوں پے بے اثر طغیانی روایتِ کُہنہ |
| اپنا جہاں وہ بناتے ہیں خود لکھتے ہیں روایت |
| لاد رہو تم شانوں پے، بارِ زیست ابھی سے |
| ہم نوا کی دکھتی نہیں ہم نشیں تجھ میں شباہت |
| گھات لگائے نکتہ چیں، گویا ہوۓ بالآخر |
| تلخ ہو جاتے ہیں مِہرؔ، کہاں گئی انکی متانت؟ |
| -----------٭٭٭٭------------- |
معلومات