| عجب یہ بے حسی چھائی، کوئی اب سن نہیں سکتا |
| جو دل میں درد ہے پنہاں، کوئی اب کہہ نہیں سکتا |
| یہاں تو مصلحت کوشی، یہاں تو رسمِ دنیا ہے |
| کوئی اپنا نہیں ہوتا، کوئی اب رہ نہیں سکتا |
| یہ مانا زندگی مشکل، مگر جینا تو لازم ہے |
| جو دل پر بوجھ ہے اپنا، کوئی اب سہ نہیں سکتا |
| سفر ہے شرطِ منزل کا، مگر رفتار دھیمی ہے |
| یہاں ہر شخص تھکتا ہے، کوئی اب چل نہیں سکتا |
| یہاں جو بات سچی ہو، وہ کب منظور ہوتی ہے |
| جو جھوٹی داستاں ٹھہری، کوئی اب رد نہیں سکتا |
| نہ کر ذکرِ وفاداری، یہ سب کچھ خواب و باطل ہے |
| جو دل سے پیار کرتا ہو، کوئی اب مل نہیں سکتا |
| یہاں ہر شے کی قیمت ہے، جو سودا دل کا کرتا ہے |
| وہ اپنا دل گنواتا ہے، کوئی اب بچ نہیں سکتا |
| ندیمؔ اس بزمِ ہستی میں، یہی اپنا مقدر ہے |
| جو دل کو چیر دیتا ہو، کوئی اب لکھ نہیں سکتا |
معلومات