| مرحبا صلِ علیٰ یہ دن دکھایا نور کا |
| مطلعِ انوار دنیا بھر پہ چھایا نور کا |
| لا درودوں کی مقدس ڈالیاں فردوس سے |
| بھیک دینے نور کی سلطان آیا نور کا |
| جھک رہی ہے کعبۃ اللہ کی جبیں سوئے نبی |
| سر جھکا کر کعبہ کو کعبہ بنایا نور کا |
| ربِّی ربی اُمَّتِی ہے زیر لب سرکار کے |
| فرش ان کی ربِّ سَلِّمْ نے بچھایا نور کا |
| اب کہاں باطل پرستی کو جگہ مل پائے گی |
| تیرا آنا خیر سے طوفان لایا نور کا |
| تیرا غلبہ ہو گیا مغلوب جان و دل ہوئے |
| رنگ تیرے عشق نے ایسا چڑھایا نور کا |
| بخش دی صدیقِ اکبر کو امامت آپ نے |
| اور عمر فاروق کو ساغر پلایا نور کا |
| پھر مزّین ہوگئے عثمان بھی دو نور سے |
| اور علی کے چہرے پر سہرا سجایا نور کا |
| دس صحابہ زندگی میں جنَّتی فرما دئیے |
| اور ہزاروں سے گلستاں لہلہایا نور کا |
| تم نے دیکھا ربِّ عالم اپنے سر کی آنکھ سے |
| ہم نے تیری ذات میں دیکھا کنایہ نور کا |
| ہے ترے سائے میں تیری ساری امت چین سے |
| تم زمیں پر ہو نہیں ہے تیرا سایہ نور کا |
| سب رضا کا فیض ہے خود کچھ نہیں جامی ترا |
| تیری مدحت میں قصیدہ گن گنایا نور کا |
معلومات