| کوئی بھی خواب میرے دل سے اب ملتا نہیں ہے |
| عجب سی خامشی ہے، کوئی کچھ کہتا نہیں ہے |
| اس قدر ہے فاصلہ اب میرے اور اس کے درمیان |
| کہ یہ احساسِ دوری اب کوئی کھلتا نہیں ہے |
| وہی راتیں ہیں، وہی صبح ہے، وہی دن بھی ہیں |
| مگر کیا کیجیے، ہر لمحہ ہی بیتتا نہیں ہے |
| کبھی تو تھا خیال اس کا ہر ایک سانس میں شامل |
| مگر اب یاد بھی اس کی دل میں سماتا نہیں ہے |
| یہ کیسی دھند ہے جو سارے رشتوں پہ چھا گئی |
| کبھی جو پاس تھے وہ دور کیوں رہتا نہیں ہے |
| بس ایک آواز کی دوری ہے اور کچھ بھی نہیں |
| یہیں وہ ہے مگر وہ میرے قریب آتا نہیں ہے |
| کہیں گم ہو گئے ہیں رستے جو ملتے تھے کبھی |
| اب اس کی جانب کوئی بھی رستہ جاتا نہیں ہے |
| محبت کی زمیں ویران ہے ہر ایک سُو |
| اس طرح سے کوئی بھی گل کبھی کھلتا نہیں ہے |
| نہیں ہے اس کے دل میں اب وہ پہلی سی چاہت |
| یہ دل بھی اب اس کے دل سے کچھ کہتا نہیں ہے |
| کوئی تصویر بھی اب اُس کی نظر آتی نہیں |
| کوئی خیال بھی اب دل کو بہلاتا نہیں ہے |
| نہ دل میں کوئی آرزو ہے نہ کوئی تمنا ہے |
| ندیمؔ اب کوئی بھی خواب دل کو دکھاتا نہیں ہے |
معلومات