اپنی زلفوں میں کہیں دیکھ سجا لے جائے
جانے کس سمت ہمیں آج ہوا لے جائے
دل میں تصویر کوئی کرتی ہے دیوانہ سا
چاندنی مجھ کو نہ مجھ سے چرا لے جائے
حوصلہ خود سے نہیں لڑنے کا باقی ہم میں
دل نشیں پھر نہ حسیں ہم کو جگا لے جائے
کھو گئے ساتھی مرے سارے پرانے والے
کچھ نئے لوگ مجھے اب نہ حنا لے جائے
زخم دل کا ہے بہت گہرا مگر میں چپ ہوں
یار چھوڑے تو ہمیں پھر نہ خدا لے جائے
ہیں اندھیرے یہ غنیمت نہ اجالے ڈھونڈو
آ کے شاید کوئی کالی سی گھٹا لے جائے
خاک ہونا ہی نصیبوں میں لکھا ہے شاہد
دنیا پاؤں میں جہاں چاہے اڑا لے جائے

0
21