نہ چاہتے ہوئے رشتہ ہر اک نبھانا پڑا
گلوں کو کانٹوں میں رہ کر بھی مسکرانا پڑا
عجب نظامِ عروج و زوال ہے صاحب
سحر کی چاہ میں سورج کو ڈوب جانا پڑا
بس ایک خواہشِ دل تھی میاں سو اس کے لیے
کہاں کہاں نہ مجھے اپنا سر جھکانا پڑا
جہاں میں جس سے ہوئے سرخرو اسی کے سبب
بروزِ حشر گریباں میں منہ چھپانا پڑا
کسی کی چاہ نے بیزارِ کائنات کیا
ہمارا نام نہ ایسے ضیا دوانہ پڑا

0
58