| باغِ جاں میں باد خِزاں نے |
| چاروں جانب رنگ بکھیرے |
| پیپل پیپل برگد برگد |
| وحشت نے ہیں ڈالے ڈھیرے |
| پچھم پورب سے چلتی ہیں |
| زرد ہوائیں سانجھ سویرے |
| / |
| اِک اِک کرکے گرنے لگے ہیں |
| مرجھائے پتے شاخوں سے |
| دل کی دھرتی کانپ اٹھی ہے |
| سوکھے پتوں کی آہوں سے |
| اک پل میں پامال ہوئے پھر |
| سب ٹکراتے ہی پیروں سے |
| / |
| دل جو پرندوں نے گلشن سے |
| رفتہ رفتہ پھر ہجرت کی |
| اور پرندوں کی ہجرت نے |
| ایسی پیڑوں کی حالت کی |
| ننگی دھرتی پر حیرت سے |
| گرتی ہے شبنم حیرت کی |
| / |
| اک پل میں پت جھڑ کی اگنی |
| کھا گئی سب دھرتی کا جوبن |
| زرد درختوں کے کندھوں پر |
| رہ گیا ہے خالی، خالی پن |
| ایسی ویرانی چھائی ہے |
| سارا گلشن لگتا ہے بن |
| / |
| اس دریاؤں کی وادی میں |
| خشک ہوئے ہیں دریا سارے |
| خالی خالی ہیں سب جھیلیں |
| سوکھے سوکھے ان کے کنارے |
| سوکھے کناروں پر ہیں اٹکے |
| پچھلے بسنت کے سارے شکارے |
| / |
| ایسے یتیم درختوں پر پھر |
| دوسرے دیش کے پنچھی آئے |
| پیت کے گیت وہ گاتے گاتے |
| دوسرا جیون ساتھ ہیں لائے |
| دوسرا جیون زرد زمیں پر |
| رینگتا ہے اب سائے سائے |
| / |
| اور نئی رت کے آنے پر |
| موسم نے بھی لی انگڑائی |
| آنگن آنگن کھڑکی کھڑکی |
| پتوں کی خوشبو لہرائی |
| زرد ہوا نے کنگی کر کے |
| پیڑوں کی ڈالی ڈالی سجائی |
| / |
| چپکے سے دھرتی نے آخر |
| اوڑ لی اب زردی کی چادر |
| اونچے اونچے پربتوں پر بھی |
| چھانے لگی برفیلی چادر |
| زرد شبستاں میں دیوانے |
| سو گئے اوڑ کے مخملی چادر |
معلومات