اب کہ تم آزاد پرندہ ہو |
جس چمن کا چاہے |
سیر کر سکتے ہو |
تم اپنی باتوں |
اپنے قسموں وعدوں سے |
مکر بھی سکتے ہو |
اب نہیں کچھ بوجھ تیرے کاندھوں پر |
کوئی بندش نہیں تیری راہوں پر |
تم چاہو تو مجھے یونہی |
اس دشتِ تنہائی میں چھوڈکر جا سکتے ہو |
تم بجھا سکتے ہو |
ان محبت کے چراغوں کو |
کو تم نے کبھی اپنے دل سے جلائے تھے |
تم خاک اڑاتے ہوئے |
اس دل کی وادی سے ہجرت بھی کر سکتے ہو |
جو کبھی تیرے نور سے تیری نمی سے |
آباد ہوا کرتا تھی |
تیرے گالوں پہ جو کچھ |
میرے لبوں کے نشاں باقی ہیں |
تم انہیں واقعیتاً مٹا بھی سکتے ہو |
چاہو تو جاتے جاتے آخری زخم بھی لگا سکتے ہو |
ہاں تم مجھے یقیناً بھلا بھی سکتے ہو |
اور تم چاہو تو |
تیرے لیے خود کو زندہ دفن کر سکتا ہوں میں |
تیرے ہجر میں تیرے غم کا کفن |
اوڑھ کے کہیں لاپتہ ہو سکتا ہوں میں |
لیکن میں تیری طرح تو نہیں کہ کہیں بھی جا سکوں |
کہ تم اک آزاد پرندہ ہو |
ہم رہے پیڑ کی مانند |
جہان لگ جائے بس عمر وہیں کٹتی ہے |
موسم جو بھی ہو تیری طرح رخ ہی نہیں پھرتے |
اب جا تجھے تیری راہیں انتظار کر رہی ہونگی |
جا تجھے کوئی اور بھی یاد کررہا ہوگا |
جا وہ عہد بھی نبھا |
جو اوروں سے باندھے ہوں گے تم نے |
جا وہ بیچارے مر رہیں ہونگے |
جا تو بھی کہیں میری طرح ادھورا ہی نہ رہے |
کہیں تیری رات بھی میری رات کی طرح نہ گزرے |
کہیں تیرے بھی خواب خواب ہی نہ رہے |
جا تجھے ڈھونڈتی ہوگی پہلی محبت کی سرد ہوائیں |
جہاں تم کو میرے سوا کسی کی یاد نہ آئے |
جہاں تو بھی میری طرح روئے پچھتائے |
جہاں تم کو میری محبت کے سوا کچھ بھی نظر نہ آئے |
جہاں تم سے ہر اپنا جدا ہو جائے |
اور تو بھی میری طرح پاگل ہو جائے |
اور پھر تم کو ہم سے عجب محبت ہو جائے |
اورتو ہم کو یہاں ڈھونڈنے آئے |
مگر تب تک دیر ہو چکی ہوگی |
خاک یہ دیوار و در ہو چکے ہوں گے |
وہ بہاریں ختم ہو چکی ہونگی |
تیری یادوں کو لیے |
تیرے خیالون کا کفن اورھ کر |
اس بلا سے سفر کر چکے ہونگے |
جانِ جاں ہم مر چکے ہوں گے |
پھر تم مجھے ڈھونڈو گے |
ہا گلی گلی شہر شہر |
ہر لمحہ ہر پہر |
لیکن ہم نہیں ملیں گے |
کہیں نہیں ملیں گے |
معلومات