| یہ سب بیکار ہیں یارو لب و رخسار کی باتیں |
| یہ کیسا عشق ہے کرتے ہو جو گلنار کی باتیں |
| سرور و عشق کی باتیں اصل کردار کی باتیں |
| چلو آؤ کریں مل کر حقیقی پیار کی باتیں |
| وہاں دھوکہ محبت میں یہاں غلبہ محبت میں |
| اُدھر ہے حسن کی پوجا اِدھر غفار کی باتیں |
| ارے میں پیش کرتا ہوں اگر مجھ کو اجازت ہو |
| محبت بھی اخوت بھی ہیں سچے یار کی باتیں |
| مجھے سویا ہی رہنے دو ابھی کچھ خواب ہیں باقی |
| سناؤں گا تمہیں اٹھ کر وصالِ یار کی باتیں |
| کہوں کیا لطف آتا ہے درونِ محفلِ جاناں |
| بٹھائے سامنے ہوتی ہیں جو دلدار کی باتیں |
| شبِ غم جب بھی آتی لیے ارمان جاتی ہے |
| لبوں پر ہوتی ہیں اس دم جمالِ یار کی باتیں |
| فنا ہو عشق میں ایسا جو دیکھے تو کہے ارشدؔ |
| کہ جاں دیکر بھی مسکاتا یہ ہیں حب دار کی باتیں |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات