کیا وہ وعدہ تھا جسے آج نبھانا ہے ہمیں!
تیری یادوں میں ہی اب اور نہ بہکنا ہے ہمیں!
شہرِ دل میں تو فقط اک تیری یادوں کی گلی!
اب تو ہر گام پہ ٹھوکر ہی کو کھانا ہے ہمیں!
یاد اس کی بھی تو آتی ہے، مگر ہنستے ہوئے!
ایک یہی دکھ ہے جسے ہنس کے نگلنا ہے ہمیں!
ساتھ چلنے کا تو وعدہ کیا تھا اس نے بھی!
اب تو ہر بوجھ کو تنہا ہی اٹھانا ہے ہمیں!
اس کا ہر لفظ محبت کا دیا تھا، ندیمؔ!
اب اسی دیے کو بجھانا بھی نہیں ہے ہمیں!
وہ گیا تو دل کو ہر آواز اجنبی سی لگی!
اس کے بعد اب کوئی نغمہ نہیں سننا ہے ہمیں!
اپنی صورت کو اگر آئینے میں دیکھو گے تو تم!
کہہ دو گے یہ وہی چہرہ ہے، مگر یہ نہیں ہے ہمیں!
اب تو بس ایک ہی رستہ ہے، کہ پھر بھٹکیں ندیمؔ!
اور کہیں اس کے شہر میں گم ہو جانا ہے ہمیں!

0
4