| وہ خفا کیا ہوں کہ وہ شرمائیں کیا |
| پردہ فرمائیں تو پھر اترائیں کیا |
| دل گیا ہاتھوں سے اب بہلائیں کیا |
| جب کیا ہے عشق تو پچھتائیں کیا |
| اک عجب سی کشمکش میں آپ ہیں |
| چپ رہیں یوں ہی تو پھر فرمائیں کیا |
| لیجۓ مت شرم سے اب کوئی کام |
| کھل گۓ سب بھید تو شرمائیں کیا |
| ہر گنہ کرنے سے پہلے سوچتے ہیں |
| پھر سے دل کی باتوں میں آ جائیں کیا |
| بھولتا کب یاد آنے والا ہے |
| بھولنے والے کو ہم یاد آئیں کیا |
| ہم وفا چاہیں تو وہ جانیں جفا |
| وہ سمجھتے کیا ہیں ہم سمجھائیں کیا |
| دے دیا جب اوکھلی میں خود ہی سر |
| موسلوں سے پھر بھلا گھبرائیں کیا |
| جب تلک تھا رزق غم کھاتے رہے |
| اڑ گیا جب رزق تو ہم کھائیں کیا |
| جب کہ وہ کچھ بات سنتے ہی نہیں |
| کیا کہیں ہم کچھ نئی دہرائیں کیا |
| بجھ رہی ہیں شمعیں ان کی بزم کی |
| اس کا مطلب ہے کہ اب ہم جائیں کیا |
معلومات