روٹھنےوالے یہ لمحات منا لیں صاحب !
دیکھیے یوں نہ مری بات کو ٹالیں صاحب !
شام کا رقص ہوا ختم کہ رات آئی ہے
مانگ تاروں سے ذرا ان کی سجا لیں صاحب !
زلف چہرے پہ بہت خوب ہے پر جان حیات
باندھیے ابر، ذرا چاند نکالیں صاحب !
رات کے حسن میں دو چند اضافہ ہو گا
چاند چہرے سے جو زلفوں کو ہٹا لیں صاحب !
ایک مدت سے ملاقات نہیں ہو پائی
مہرباں ہو کے کسی روز بلا لیں صاحب !
اپنے افکار سے روشن مرا سینہ کر دیں
آگہی دے کے مری زیست اُجالیں صاحب !
تھک گیا ہوں میں کڑی دھوپ میں چلتے چلتے
اک ذرا دیر کو آنچل میں چھپا لیں صاحب!

0
2