| جب کہنے کو ہے کہا، کچھ بھی نہیں |
| تو سننے کو بھی رہا، کچھ بھی نہیں |
| ہے کچھ بھی نہیں ترے بعد یہاں |
| ہے مرنے کی اب سزا، کچھ بھی نہیں |
| مشروط ہے خُلد بھی سجدوں سے گر |
| کیا ہجر کی پھر جزا، کچھ بھی نہیں؟ |
| کے بادِ صبا ہو کہ خندۂِ گل |
| دِکھتی ہے تری ادا، کچھ بھی نہیں |
| جائز ہے وجہِ کنارہ کشی |
| اُمیدِ وفا رہی، کچھ بھی نہیں |
| پالے ہوئے تھے سانپ آستیں میں |
| پھر خوفِ دغا رہا، کچھ بھی نہیں |
| مشکل ہو کہ سہل ہو وقت مگر |
| باقی تو رہا سدا، کچھ بھی نہیں |
| سِمٹا نہ حیات میں عشق کبھی |
| دنیا سے گلہ بجا، کچھ بھی نہیں |
| تھا وصل بھی، غمِ ہجر بھی تھا |
| پر بانٹنے کو بچا، کچھ بھی نہیں |
| رکھتے تھے حساب وہ ہجر کا جب |
| لوٹائی مگر قضا کچھ بھی نہیں |
| تلخیءِ فراق ہے مہرؔ بہت |
| ملنے کا رہا مزا، کچھ بھی نہیں |
معلومات