| سیاہ شب نے شجر لپیٹا |
| مسافروں نے سفر لپیٹا |
| بچھا کے یادوں کا ایک بستر |
| فراق شب کی بسر ، لپیٹا |
| زمیں پہ مدت ہوئی مکمل |
| کرائے پر تھے ، سو گھر لپیٹا |
| وہ بت ہوا ہم کلام جب سے |
| سخن وروں نے ہنر لپیٹا |
| چلے کہ چلنا ہی زندگی ہے |
| تھکن بڑھی تو سفر لپیٹا |
| چلی ہے باتوں میں بات اس کی |
| بڑھی اسے جس قدر لپیٹا |
| دکھائی دل کو تمہاری تصویر |
| لگا کے اس کو بٹر لپیٹا |
| نقاب یونہی کیا نہیں ہے |
| وہ جوہری تھا ، گہر لپیٹا |
| سنوارے تم نے یہ بال اپنے |
| کہ گیسؤوں میں قمر لپیٹا |
معلومات