| اب ظلمتِ راہِ عِشق مِٹانا سیکھ لیا |
| دلِ کشتہ کو مشعل اپنی بنانا سیکھ لیا |
| چشمِ نرگس کی بے رخی کا تم دیکھو اثر |
| ان دشت آنکھوں نے لہو بہانا سیکھ لیا |
| لمحے قربت کے نہ آئے میسر کچھ بھی ہمیں |
| دلِ مجبور نے سوز میں جینا سیکھ لیا |
| کچھ گام پہ صاحب میرے تو موجود ہیں وہ |
| یہ مسافتوں نے کیوں طول پکڑنا سیکھ لیا؟ |
| پہنچا نہیں تیرا سفینہ کیوں لبِ ساحل؟ |
| موجوں نے بھی طبعِ صنم اپنانا سیکھ لیا |
| اقرار کبھی انکار کبھی خاموش ہوئے |
| نِشتر زنی یہ ہمہ پہلو کرنا سیکھ لیا |
| درِ پردہ پارا مزاجِی اب اِعراض کیا |
| کیا خوب بہانا اب سے بنانا سیکھ لیا |
| رہتے وہ اصولوں کے اوزاں میں پیچاں تھے |
| ہم نے رشتوں کی آب نبھانا سیکھ لیا |
| پا بندِ اسیرِ زلف مہرؔ ہیں نام مگر |
| یہ داخلِ دفترِ عشق کرانا سیکھ لیا |
| -------------٭٭٭----------- |
معلومات